ہونزائی اسماعیلی فرقے کے عقائد وافکار پر نوافلاطونی نظریات کے اثرات کے خصوصی تجزیہ
Abstract
اللہ تبارک و تعالی نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لئے قرآن پاک کی صورت میں ایک سر چشمہ ہدایت نازل فرمایا- چنانچہ قرآن پاک نے مذہب کا جو مقدمہ پیش کیا ، وہ انتہائی سادہ ، عام فہم اور عام لوگوں قابل فہم قائم تھا۔ پھر گردش زمانہ نے اسلامی تحریک کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیا جس نے اسلام کو عجمی نظریات کی آلودگیوں سے دو چار کردیا- یہ نظریات مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں اور اقوام کی معرفت سے اسلام میں داخل ہوئے۔ جب اسلام عرب کی حدود سے باہر نکلا تو رومی، یونانی، قبطی، ایرانی اور ہندی اقوام اس میں داخل ہوئیں- جن کی معرفت ان کے نظریات بھی اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے - یہ اقوام اسلام سے قبل مختلف اور پیچیدہ قسم کے فلسفیانہ نظریات کی حامل تھی-جو اسلامی نظریات سے متصادم تھے، ان اقوام میں سے جن لوگوں اسلام قبول کیا انہوں نے ان نظریات سے مکمل طور جان نہیں چھڑا سکے جو انہیں اپنے آباو اجداد سے ورثے میں ملے تھے- چنانچہ ان حضرات نے اسلامی تعلیمات کی تعبیر اپنے پرانے نظریات کی روشنی میں کرنے لگے، مسلمان مفکرین بھی ان فلسفیانہ موشگافیوں کے شکنجے میں آگئے اورابن سینا، ابن رشد، فارابی اور کندی سمیت کم وبیش تمام مسلمان فلسفی اور محققین بھی ان فلسفیانہ نظریات سے متاثر ہوئے، جس کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات پر فلسفہ کو خول چڑھ گیا ۔ دورِ جدید میں بھی بعض محققین اور صوفیاء اپنے افکار کی بنیاد نوافلاطونیت پر رکھتے ہیں ، جن میں خصوصی طور اسماعیلی فرقہ کے پیشوا صف ِ اول میں نظر آتے ہیں ، اس تناظر میں دور ِ جدید میں اسماعیلی فرقہ کے مشہور سکالر اور ہونزائی فرقہ کے بانی علامہ نصیر الدین ہونزائی بھی اپنی تصنیفات میں یونانی فلسفہ سے خوب خوب استفادہ کیا ہے۔ اس مقالہ میں علامہ ہونزائی کے افکار پر نوافلاطونیت کے اثرات کے ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔