تبادلہ اشیاء کے جدید ذرائع کی فقہی حیثیت کا تجزیاتی مطالعہ
An Analysis of Legal Status (Jurisprudential Status) of Modern Sources of Currency
Abstract
Human being has different needs for survival including food, clothes, and other social necessities. In this regard, it needs some medium of exchange; so it could fulfill its physical needs. As per chronological history, it has utilized different sources for this purpose including commodities, metal, gold, etc. Contemporary, it operates modern courses of currency such as plastic currency, credit cards, and digital currencies. Explicatory, the currency has two types such as real and assumed currencies. Real currency is gold/silver which needs no legal power while the assumed currency is in dire need of legal and political power. Clarifying, the assumed currency has also two types such as legal and illegal currencies. Those who have legal justification endorsed by an official govt of a State are considered legal currency; which is considered as a real currency/gold. Contrary, an assumed currency that is not endorsed/adopted by any State or govt is illegal. Concluding, there are three main modern currencies emerged worldwide respectively, plastic currency, credit cards, and digital currency. These types will not only be elaborated in the lines below but also a detailed discussion will be mentioned about their jurisprudential status (fiqhi status).
References
الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد و مجلۃ البحوث الاسلامیہ (ریاض: مکتبہ المملکۃ السعودیۃ العربیہ، س ن)، 200/ 1
Āl Riāsaẗ ālʿāmaẗ li Idārāt āl Būḥūwṯ ālʿalamiyyaẗ wa āl Iftāʾ wa āl daʿwaẗ wa āl Iršād wa maǧlaẗ āl Būḥūwṯ āl Islāmiyyaẗ (Riāḍ: Maktabaẗ āl mamlikaẗ āl saʿūwdiyyaẗ ālʿārbiyyaẗ, nd), 1/200
الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد و مجلۃ البحوث الاسلامیہ (ریاض: مکتبہ المملکۃ السعودیۃ العربیہ، س ن)، 200/ 1
Āl Riāsaẗ ālʿāmaẗ li Idārāt āl Būḥūwṯ ālʿalamiyyaẗ wa āl Iftāʾ wa āl daʿwaẗ wa āl Iršād wa maǧlaẗ āl Būḥūwṯ āl Islāmiyyaẗ (Riāḍ: Maktabaẗ āl mamlikaẗ āl saʿūwdiyyaẗ ālʿārbiyyaẗ, nd), 1/200
موجودہ کاغذی کرنسی کے بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک کاغذی کرنسی اس بات کی دستاویز ہے کہ حامل ھذا اتنی مقدار سونے اور چاندی کا مالک ہے جبکہ بعض کے نزدیک یہ سامان اور عروض ہیں۔ کچھ اہل علم کے نزدیک زر اصطلاحی ، رسیدیں، ڈرافٹ اور زر حقیقی ہے ۔ ہر قول پر مباحث ، سوال و جوابات اور مناقشات کا طویل سلسلہ کتب میں موجود ہے۔
ایک وقت تک یہ کرنسی گولڈ سٹینڈرڈ تھی جس میں اشیاء و خدمات یا سرمایہ کاری کی قدر سونے/چاندی سے کی جاتی ہے یعنی کاغذ ی کرنسی سونے کی مخصوص مقدار کو واضح کرتی تھی ۔ کاغذی نوٹ حکومتوں کے پاس موجود سونے کے قائم مقام ہوتے تھے۔ حکومت نوٹوں کی تعداد گولڈ ریزرو Gold Reserves سے بڑھاسکتی تھی اور طلب پر سونے کی ادائیگی کی پابند ہوتی تھی لیکن بعد میں سب قوانین تکلفات سمجھ کر بدل دئیے گئے اور اب کرنسی بے بنیاد ہے۔
محمد بن عبداللہ، رحلة ابن بطوطة المسماة تحفة النظار في غرائب الامصار وعجائب الأسفار (بیروت: دار الشرق، س ن)، 270/2
Mūhammad bin ʿĀbdūllah, Raḥlaẗ ibn e Baṭūwṭaẗ āl Mūsamāaẗ Tūḥfaẗ āl Naẓāir fy Ġarāib āl āmṣār waʿǧāib āl Āsfār (Berūwt: Dār āl Šarq, nd), 2/ 270
الدکتور عبداللہ بن عبدالمحسن، الاقتصاد الاسلامی اسس و مبادی و اھداف (بیروت: دار الفکر ، س ن )، ص 115
Dr. ʿAbūllāh bin ʿAbdūl Mūhsin, āl Iqtiṣād āl Islāmi ūssisūn wa Mabādiūn wa Āhdāf (Berut: Dār āl Fikr, nd), 115
وزارۃ الاوقاف و الشئوون الاسلامیہ، الموسوعہ الفقہیہ (کویت: دار السلاسل، 1427 ھ)، 178/4
Wazāraẗ āl Āwqāf wa āl Šūwūwn āl Islāmiyyaẗ, āl Mūwsūwʿaẗ āl Fiqhiyyaẗ (Kūwayt: Dār āl Salāsil, 1427A.H), 4/178
بینک آف انگلینڈ برطانیہ کا مرکزی بینک ہے جو 1694 میں سکاٹ لینڈ کے بینکار ولیم پیٹرسن William Paterson نے نجی ادارے کے طور پر قائم کیا جو انگلینڈ کے فرانس کے خلاف جنگ میں قرض دینے کی شرائط پر وجود میں آیا ۔ بعد ازاں 1946 میں اسے قومی تحویل میں لیا گیا۔ (دیکھیے The Origin of Central Banking)
ابو زید بکر بن عبداللہ ، بحث عن بطاقۃ الدئتمان (ریاض: مکتبہ السعودیہ ، 1417 ھ)، ص 7
Ābūw Zaid Bakar bin ʿĀbdūllah, Baḥṯṯ ʿĀan Baṭāqaẗ āl Diʾtmān (Riāḍ: Maktabaẗ āl Saʿūwdiyyah, 1417 A.H), 7
فتحی شوکت مصطفی عرفات، بطاقات الدئتمان النبکیہ فی الفقہ الاسلامی (نابلس: جامع النجاح الوطنیہ ، 2007ء)، ص 7
Fatḥi Šaūwkat Mūṣtafā ʿĀrfāt, Baṭāqāt āl Ditmān āl Bankiyyah fy āl Fiqh āl Islāmy (Nāblas: Ǧāmiʿ āl Naǧāḥ āl Waṭniyyah, 2007 ), 7
نور احمد شاہتار ، کریڈٹ کارڈ ، تاریخ ، تعارف اور شرعی حیثیت (کراچی: سکالرز اکیڈمی، س ن)، 14
Nūwr Āḥmad Šāhtār , Credit Card, Taʿārūf, Tāriẖ āūwr Šarʿy Ḥaiṯiyt (Karāchi: Scholars Academy, nd), 14
محمد علی بن عبد الفری ، بطاقات الدئتمان (جدہ: مجمع الفقہ الاسلامیہ ، س ن)، 493/7
Mūhammad ʿĀli bin ʿabd Āl Farā, Biṭaqāt āl Ditmān (Ǧaddah: Maǧmaʿ āl Fiqh āl Islāmiyyah, ns), 7/493
فتحی شوکت مصطفی عرفات، بطاقات الدئتمان النبکیہ فی الفقہ الاسلامی (نابکس: جامع النجاح الوطنیہ ، 2007ء)، ص 4
Fatḥi Šaūwkat Mūṣtafā ʿĀrfāt, Baṭāqāt āl Ditmān āl Bankiyyah fy āl Fiqh āl Islāmy (Nāblas: Ǧāmiʿ āl Naǧāḥ āl Waṭniyyah, 2007 ), 4
محمد علی بن عبد الفری ، بطاقات الدئتمان (جدہ: مجمع الفقہ الاسلامیہ ، س ن)، 3/1
Mūhammad ʿĀli bin ʿabd Āl Farā, Biṭaqāt āl Ditmān (Ǧaddah: Maǧmaʿ āl Fiqh āl Islāmiyyah, ns), 7/493
وزارۃ الاوقاف و الشئوون الاسلامیہ، الموسوعہ الفقہیہ (کویت: دار السلاسل، 1427 ھ)، 207/1
Wazāraẗ āl Āwqāf wa āl Šūwūwn āl Islāmiyyaẗ, āl Mūwsūwʿaẗ āl Fiqhiyyaẗ (Kūwayt: Dār āl Salāsil, 1427A.H), 1/ 207
فقہی اعتبار سے اس کی مماثلت بیع الصرف سے ہے جس میں دو طرفہ سونے /چاندی کا باہم تبادلہ ہوتا ہے جس کی دیگر ضروری شرائط میں سے ایک اہم شرط مجلس عقد میں دونوں پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔
الدکتور عمر بن عبدالعزیز، الرباء والمعاملات المصرفیہ فی نظر الشریعۃ (بیروت: دار العاصمہ للنشر و التوزیع، س ن ) ص 321
Dr. ūmar bin ʿAbūl ʿAzyz, āl Ribā wāl Mūāmlāt āl Masrafiyyaẗ fy Naẓr āl Šariʿaẗ (Berut: Dār āl ʿAṣimaẗ li āl Našr wa āl Tawziyʿ, nd), 321
ڈاکٹر نور احمد شاہتاز ، کاغذی کرنسی کی تاریخ، ارتقاء اور شرعی حیثیت (کراچی: فضلی سنز، 1998 ء) ص 60
Dr. Nūwr Āḥmad Šāhtāz, Credit Card, Taʿārūf, Tāriẖ āūwr Šarʿy Ḥaiṯiyt (Karāchi: Fazli Sons, 1998), 60
امام احمد رضا خان ، کفل الفقیہ فی احکام قرطاس الدراھم (بیروت: دارالکتب العلمیہ، س ن )، ص 33
Imām Āḥmad Razā H̱ān, Kafiyl āl Faqhih fy Āḥkām āl Qirṭās āl Dirāim (Berūwt: Dār āl Kūtūb āl ʿalamiyyah, nd), 33
مفتی عارف محمود، کریڈٹ کارڈز کا تعارف اور فقہی جائزہ (کراچی: مکتبہ عمر فاروق، 2015 ء)، ص 80
Mūfty ʿārif Maḥmūwd, Credit Cards kā Taʿārūf āūr Fiqhi Ǧāizah (Karāchi: Maktabaẗ Uūmar Fārūwq, 2015), 80
محمد بن ابی سہیل سرخسی، المبسوط ( بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1994ء)، 55/2
Mūḥammad bin Ābi Sahal Saraẖsi, āl Mabsūwṭ (Berūwt: Dār āl Kūtūb āl ʿalamiyyah, 1994), 2/55
مسعود بن عمر التفتازانی، شرح العقائد النسفیہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، 2014 ء) 362/3
Masʿūwd bin ʿUmr Taftāzny, Šaraḥ āl ʿaqāid āl Nasfiyyaẗ (Berūt: Dār Āḥyāʾ āl Tūrāṯ āl ʿarby, 2014), 3/ 362
عبداللہ بن محمود موصلی ، کتا ب الاختیار (لاہور: مکتبہ رحمانیہ، س ن)، 431/2
ʿAbdūllah bin Maḥmūwd Mūwṣli, āl Iẖtiyār (Lahore: Maktabaẗ Raḥmāniyyah, nd), 2/ 431
عبداللہ بن محمود موصلی ، کتا ب الاختیار (لاہور: مکتبہ رحمانیہ، س ن)، 3/2
ʿAbdūllah bin Maḥmūwd Mūwṣli, āl Iẖtiyār (Lahore: Maktabaẗ Raḥmāniyyah, nd), 2/ 3
محتال علیہ فوت ہوجائے یا مفلس ہوجائے یا اپنے معاہدہ کو توڑ ڈالے وغیرہ اگرچہ بظاہر بینک سے معاہدہ میں ان کا امکان کم ہے ۔
صدر الشریعہ عبداللہ بن مسعود، شرح الوقایہ (کراچی: مکتبہ بشریٰ، 2020ء)، 245/3
Ṣadrū Šriẗ, ʿadūllah bin Masʿūwd, Šarḥ āl Wiqāyyah (Karāchi: Maktabaẗ āl Būšra, 2020), 3/ 245
عبداللہ بن محمود موصلی ، کتا ب الاختیار (لاہور: مکتبہ رحمانیہ، س ن)، 441/2
ʿAbdūllah bin Maḥmūwd Mūwṣli, āl Iẖtiyār (Lahore: Maktabaẗ Raḥmāniyyah, nd), 2/ 441
دَین صحیح فقہی اصطلاح ہے جس سے مراد وہ قرض ہے جو ادا ء کرنے سے یا قرض خواہ کی طرف سے بری کرنے سے ذمہ سے ساقط ہو ۔ دیکھیے شرح الوقایہ ، 209/3
عبداللہ بن احمد ابن قدامہ ، المغنی شرح مختصر الخرقی (بیروت: دار احیاء التراث العربی ، 1405 ھ)، 197/2
ʿbdūllah bin Āḥmad Ibn e Qūddāmah, āl Mūġny Šarḥ āl Mūẖtaṣar āl H̱arqi (Berūt: Dār āḥyāʾ āl Tūrāṯ āl ʿarbi, 1405), 2/ 197
محمد بن ابراہیم ا بن منذر ، الاشراف علی مذاہب اہل العلم (بیروت : دار الفکر للنشر والطباعۃ والتوزیع، 1993ء)، 120/ 1
Mūḥamamad bin Ibrāhim Ibn e Manḏar, āl Išrāf ʿalā Maḏāhib āhlil ʿlm (Berūwt: Dār āl Fikr lil Našr wa āl Tabāʿah, wa āl Taūwziʿ, 1993), 1/ 120
صدر الشریعہ عبداللہ بن مسعود، شرح الوقایہ (کراچی: مکتبہ بشریٰ، 2020ء)، 582/3
Ṣadrū Šriẗ, ʿadūllah bin Masʿūwd, Šarḥ āl Wiqāyyah (Karāchi: Maktabaẗ āl Būšra, 2020), 3/ 582
جہاں تک اہل علم کا یہ کہنا کہ سودی معاملہ میں ہر طرح کی شرکت ممنوع ہے تو ایسے شخص کا کریڈٹ کارڈ کے معاہدہ میں خاص شرائط کے ساتھ سود دینے پر رضامندی کا اظہار اس گناہ میں شریک ہونا ہے۔ لہٰذا کریڈٹ کارڈ کا اس طرح کا استعمال درست نہیں ۔ اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مجبوری کی حالت میں کریڈٹ کے استعما کی اہل علم نے گنجائش دی ہے کیونکہ اس شرط کو تبدیل کروانا صارف کے لیے ممکن نہیں جبکہ وہ سود ادا نہ کرنے کا قوی ارادہ بھی رکھتا ہو تو الا من اُکرہ ۔۔۔۔۔الخ کی رو سے ایسا شخص سودی معاملہ کرنے کی وعید سے بری ہوسکتا ہے جیسے اہل علم نے کمپنی کے حامل شیئر کو اس کے سودی معاملات سے Annual General Meeting میں اعلان برأت کرنے پر اس کمپنی کے شیئرز خریدنے کی اجازت دی ہے حالانکہ کمپنی کے شیئرز کی خریداری کوئی مجبوری کا معاملہ بھی ہے۔
Copyright (c) 2023 Al-Az̤vā

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
On the submission of an article, the author(s) are assumed to grant the copyright of the article to the journal which will edit, format, publish and get it indexed by the indexing agencies.