معاشرتی اصلاح اور اتحادِ امت کے فروغ میں مقاصدِ شریعت کی فعالیت
Abstract
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات با برکات غنی اور بے نیاز ہے۔ اسے اپنے بندوں کی عبادت کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی بندوں کا عبادت کرنا اس کی شان میں کوئی اضافہ کر رہا ہے۔جب تکوین و تخلیق سے باری تعالیٰ کا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں تو اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا کہ اس میں مخلوقات کی بھلائی مقصود اور ملحوظ ہو۔ شارع نے جتنے بھی احکامات دیے ہیں وہ سب بندوں کی مصلحت کی بنا پر دیے ہیں اور ان پر عمل کرنے میں انہی کا نفع ا ور عمل نہ کر نے میں نقصان ہے۔ شارع نے بعض احکام دیتے ہوئے ان کے مصالح کی تعیین بھی فرمائی ،البتہ بعض احکام کے مقاصد اور مصالح کی تفہیم اور ادراک اولوالالباب پر چھوڑ دی گئی کہ وہ ان مقاصد کا ادراک کریں پھر ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔اس پس منظرسے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احکام شرعیہ اپنے اندربہت سے فوائدرکھتے ہیں۔حب جاہ اوردین سے دوری جہاں معاشرتی بگاڑکاذریعہ بنی ہے وہیں اس نے اہل اسلام کی صفوںمیں اختلاف وافتراق کو بھی جنم دیاہے۔چنانچہ مذکورہ دونوں خرابیوں کاسدباب وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی اصلاح معاشرہ اورملت اسلامیہ کے اتحاد واتفاق بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ۔معاشرتی اصلاح فرد ،معاشرہ اورریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ریاست ،معاشرہ اور فرد کی اس ذمہ داری کو قرآن حکیم نے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: