سودی نظام معیشت میں اسلامی بینکاری: ایک سراب یا حقیقت؟

Authors

  • محمد ابوبکر صدیق شعبہ اسلامی تعلیم و تحقیق، انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد، پاکستان Author
  • محمد اشرف اسکالر، شعبہ اسلامی علوم، جامعہ پنجاب، لاہور، پاکستان Author

Abstract

سودی نظام معیشت نے دولت کے حصول کے لئے جن اصول و ضوابط اور طریقوں کو متعارف کروایا وہ اخلاقی قدر، اشتراکی جذبات سے عاری ہے۔ جرم سے مال حاصل کرنا اس کی نگاہ میں کوئی مقصد نہیں رکھتا۔ اسی نظام کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کے درمیان سودی قرضے نے گروی و رہن کی صورت میں بنیادی انسانی تعلقات کو معاشرتی اقدار کی بنیاد پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا۔ اسلامی مالیاتی نظام انفرادیت پسندی اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے جبکہ اس نظام کا انحصار صرف منافع خوری پر ہوتا ہے۔ انسانیت کے خیرخواہ علمائے دین و دانشور اور ماہرین معاشیات ہمیشہ اس نظام کے خلاف لڑتے رہے۔ آدم سمتھ (Adam Smith) کے بقول، "اخلاق کی اساس پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی جائے، یہ ہمارے معیارات سے غیر مطابقت رکھتی ہے۔" اسلام کے تصور عدل میں تو قرض کا بوجھ محض مالی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہوتا ہے۔ قرض خواہ پر قرض دار کی مدد کا حکم اور اسے آسانی فراہم کرنا ہے۔

اسلامی بینکاری کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں، یہ ایک جامع فلاحی نظام کا بیج بو دیا گیا تھا جو آج اسلامی بینکوں کی صورت میں نمو پذیر ہوا ہے، جو دنیا کو ایک متبادل فراہم کرتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و جبر اور نابرابری سے نجات دلا سکتا ہے۔

 

Downloads

Published

2015-06-30